Dukh ki haqeeqat

Dukh ki haqeeqat

Dukh ki haqeeqat. insan ko jab kabhi bhi dukh milta hai to wo andar say toot jata hai. ye fitri si bat hai. magar bhut si batoon par ghor karna chayie kay hamaray sath aisa kion hota hai aur aisi halat main insan ko kia karna chayie

اکثر جب ہمیں کوئی دُکھ ملتا ہے تو ہم اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں اور اپنے جسم و روح پر سوگ کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ شاید یہ لبادہ اوڑھ کر ہم دُکھ دینے والے سے اور دُکھ بنانے والے سے, ناراضگی کا اظہار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دُکھ, دُکھ بنانے والے کا احسان ہے, دُکھ اُس کی رحمت ہے۔ ایک ایسی رحمت جس کی برسات اُس دل کی زمین پر ہوتی ہے جِسے فصلِ عشق کے لیے تیار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ دُکھ سے شکست کھا کر ٹوٹ جانا بہت آسان ہے۔ اپنے دُکھوں کا کٹورا ہاتھ میں لیے ہمدردیوں کی بھیک مانگتے رہنا اُس سے بھی ذیادہ آسان ہے۔ دنیا بھری پڑی ہے اپنے دُکھوں کا سوگ منانے والوں سے, اور یہی سوگ انسان کو مایوس ہونا سکھاتا ہے۔ شیطان, نفس کے ذریعے انسان کو اسی لیے سوگ میں مبتلا کرتا ہے تاکہ اُسے یادِ حق سے غافل کر کے اُس کے صبر و شُکر کی صلاحیت سلب کر لے

اور اُسے مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دُکھ سہ لینے والا, اپنے غم میں الله سے راضی رہنے والا, الله کی خاطر دُکھ کی وجہ بننے والوں کو معاف کر دینے والا اور ہر حال میں صبر و شُکر کرنے والا شخص, الله کے قریب ہو جاتا ہے۔ اگر دُکھ سہ لیا جائے تو یہی دُکھ روحانیت کی سیڑھی بن کر روح و جسم کو نکھار دیتے ہیں اور اگر صبر و شُکر کا دامن ہاتھ سے چھُوٹ جائے تو یہی دُکھ عُمر بھر کا روگ بن کر روح و جسم کو اُجاڑ کے رکھ دیتے ہیں۔

الله سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رضا میں راضی رہتے ہوئے ہر حال میں صابر و شاکر رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور بےجا اُداسی, شکوہ شکایت اور مایوسی سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔

تحریر: محمد کامران احمد